Monday, September 21, 2009

Har Fun Mola.,..!

پاکستان کا ہر فن مولا میڈیا

ٹاک شو

تجزیہ کاروں کے مطابق لوگ انٹرٹینمنٹ کے لیے نیوز ٹاک شو دیکھتے ہيں

کہتےہیں کہ جنگ میں سب سے پہلا خون سچ کا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ٹی وی چینلوں کی مسابقت کی جنگ میں شاید سچ کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور صحافت کو بھی قتل کیا جارہا ہے۔

پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کے مذاکرے کا حال سنیے : اپوزیشن کی خاتون رکن اسمبلی،خاتون وزیر کی گفتگو کےدوران سر پیچھے جھٹک جھٹک کر قہقہے لگا رہی ہیں اورخوشی کے اظہار کے لیے ایک زور دارتالی بجاتی ہیں۔خاتون وزیر چڑ کر دو چار ایسے الفاظ بولتی ہیں کہ ایم این اے صاحبہ کی ہنسی کو بریک لگ جاتی ہے وہ کہتی ہی کہ سوری جی میں تو اس قسم کی گندی باتیں نہیں کرسکتی جس طرح کی میڈیم کررہی ہیں۔

دوسرا واقعہ سنیے نیوز کاسٹر کہہ رہے ہیں' ابھی کچھ دیر پہلے ہم نے آپ کو بریکنگ نیوز دی تھی کہ معروف شاعر احمد فراز انتقال کرگئے ہیں اس خبر میں تازہ ترین اپ ڈیٹ یہ ہے کہ وہ ابھی زندہ ہیں۔'

حال ہی میں ایک شادی سکینڈل میں ملوث پاکستان کی سب سے بڑی فلمی ہیروئن کا ایک ایسا ویڈیو کلپ نشرہوا جس میں وہ صوفے پر براجمان رپورٹر پر جھکی کبھی اس کےدونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کرتو کبھی اس کے سینے پر ہتھیلی جماکراسے کچھ سمجھارہی ہیں۔اسی کلپ کے آغاز میں اداکارہ کی ویڈیو کیمرہ بند کرنے کی درخواست اور جوابا انہیں دی جانے والی جھوٹی یقین دہانی بھی موجود ہے۔

آپ کیمرہ اور مائیک اٹھائے کسی کے بھی گھر میں گھس سکتے ہیں، آپ کیمرہ بند ہونے کا جھانسہ دیکرکسی کی بھی نجی زندگی کا تماشہ لگا سکتےہیں کیونکہ آپ ٹی وی کے رپورٹر، اینکر ہیں۔ میڈیا کے ایک سٹار ہیں، گفتار کے غازی ہیں۔صدرمملکت،چیف جسٹس آف پاکستان سے لیکر نتھوقصائی تک کوئی بھی آپ کی ' اعلی پرفارمنس' کا نشانہ بن سکتا ہے۔آپ کسی کے بھی ذاتی کردار پر خود بھی کیچڑ اچھال سکتے اور کسی کے ذریعے بھی یہ کام کروا سکتے ہیں۔

آپ نہ تو خود صحافتی اصول بناتے ہیں نہ ہی کسی دوسرے کو بنانے دیتے ہیں۔ اگر حکومت اشارتا صحافتی اخلاقیات کے ضابطے بنانے کی بات بھی کرلے تو آزادی صحافت پر بندش لگانے کا الزام ایک خوفناک شور کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

آپ ہر فن مولا ہیں آپ کی کسی ایشو پرگرفت نہ بھی ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ متحارب فریقوں کو آپس میں لڑا کر تماشہ لگا دینا آپ کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے۔

تماشہ بھی ایسا دلچسپ کہ جس نے پاکستان کو غالبا دنیا کا وہ واحد ملک بنا دیا ہے جہاں لوگ انٹرٹینمنٹ کے لیے نیوز ٹاک شو دیکھتے ہیں اور درجہ بندی سب سے بلند مقام ہونے کی وجہ سے انہیں پرائم ٹائم میں چلایا جاتا ہے۔

روزنامہ پاکستان کے مدیر اعلی مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ ’ایک طوفان بدتمزی برپا ہے سیاسی و ذاتی الزام تراشی ہورہی ہے لوگ مرغے لڑانے بیٹھ جاتے ہیں۔جو چاہے جس مرضی کوگالی دے اور اس کا نام آزادی صحافت رکھ دیا گیاہے۔”

انہوں نے کہا ' لگتا ہے کہ ٹی وی چینلز میں ایڈیٹر(پروڈیوسر) نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے۔اینکر پرسن اور رپورٹر جو چاہتا ہے وہ لائیوکوریج کے نام پر براہ راست عوام تک پہنچ رہا ہے۔'

عارف نظامی کہتے ہیں 'جب سڑک پر چلتے لوگوں کو اینکر پرسن بنا دیا جائے اور ان کی مناسب تربیت کا بندوبست بھی نہ کیا جائےتو یقینامعیار نیچے آئے گا۔'

بہرحال ایسا بھی نہیں کہ تمام اینکر پرسن اور رپورٹر صحافت سے نابلد ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو پہلے توپرنٹ میڈیا سے وابستہ تھے اور ان کی ' تخلیقات' ادارتی ڈیسک کی چھلنی سے گذر کر عوام تک پہنچتی تھیں لیکن وہ جب ٹی وی سکرین کی زینت بنے تو ان کی اڑان روکنے والا کوئی نہیں رہا۔ایسے بھی ہیں جو صحافتی اخلاقیات اور اصولوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن بس رنگ میں رنگے گئے ہیں۔

چند پروگرام ایسے بھی ہیں جن میں صحافتی اقدار کا پاس کیا جاتا ہے اور اخلاقیات کی حد پار نہیں کی جاتی لیکن بدقسمتی سے ایسے پروگرام مقبولیت کی درجہ بندی میں بہت نیچے چلے جاتے ہیں۔

بنیادی وجہ مسابقت ہے اگر کسی چینل پر کسی شخصیت کا تماشا لگ جائےدشنام طرازی ہویا کوئی ایسی نازیبا حرکت ہوجائے جو شہر میں زیربحث آجائے تو اس چینل کے دیکھنے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی اور ناظرین کی زیادہ تعداد چینل کو درجہ بندی میں اوپر لے جائے گی۔

ریٹنگ بہتر ہونے سے اشہتارات کی تعداد اور نرخ بڑھتے ہیں چینل کے کرتا دھرتاؤں کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوتا ہے، مالک خوش ہوتا ہے اوراینکرپرسن یارپورٹر کی مارکیٹ ویلیو آسمان پرجالگتی ہے۔

مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں ' اگر کوئی شخص بازار میں ننگا کھڑاہوجائے تویہ تماشہ دیکھنے کے لیے ایک مجمع لگ جائے گا لیکن شہرت حاصل کرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔' ان کا خیال ہے پاکستان میں میڈیا جو کچھ کررہا ہے اس کی ذمہ داری سماج اور سرکار پر عائد ہوتی ہے۔

انہوں نے یورپ اور امریکہ جیسے ترقیاتی یافتہ معاشروں کی مثال دی جہاں ہتک عزت کا قانون ہے جو حرکت میں بھی آتا ہے،سول سوسائیٹی ہے جو اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔

پاکستان میں آج تک ہتک عزت کا کوئی ایسا مقدمہ نہیں ہوا جس میں میڈیا کو سزاسنائے جانے کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہوا ہو۔ پوری صحافتی تاریخ میں صرف نوائے وقت کے خلاف پیپلز پارٹی کے رہنما شیخ رشید (مرحوم) کا ایک کیس ہواتھا جس میں اخبار کو کرڑوں روپوں میں جرمانہ بھی ہوا لیکن بعد میں سپریم کورٹ سے اخبار کے حق میں فیصلہ ہوگیا تھا۔

پاکستان میں ہتک عزت کا مقدمہ کرنے کا رواج نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں عدلیہ صرف نام کی آزاد ہے۔'

وجوہات جو بھی ہوں پاکستان کی صحافتی اخلاقیات پر یہ تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کا حال ایسے جاں بلب بکرے جیسا ہے جسے اناڑی قصائی کند چھری سے ذبح کرنے کی کوشش کررہا ہے۔