Wednesday, August 11, 2010
Monday, September 21, 2009
Har Fun Mola.,..!
کہتےہیں کہ جنگ میں سب سے پہلا خون سچ کا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ٹی وی چینلوں کی مسابقت کی جنگ میں شاید سچ کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور صحافت کو بھی قتل کیا جارہا ہے۔
پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کے مذاکرے کا حال سنیے : اپوزیشن کی خاتون رکن اسمبلی،خاتون وزیر کی گفتگو کےدوران سر پیچھے جھٹک جھٹک کر قہقہے لگا رہی ہیں اورخوشی کے اظہار کے لیے ایک زور دارتالی بجاتی ہیں۔خاتون وزیر چڑ کر دو چار ایسے الفاظ بولتی ہیں کہ ایم این اے صاحبہ کی ہنسی کو بریک لگ جاتی ہے وہ کہتی ہی کہ سوری جی میں تو اس قسم کی گندی باتیں نہیں کرسکتی جس طرح کی میڈیم کررہی ہیں۔
دوسرا واقعہ سنیے نیوز کاسٹر کہہ رہے ہیں' ابھی کچھ دیر پہلے ہم نے آپ کو بریکنگ نیوز دی تھی کہ معروف شاعر احمد فراز انتقال کرگئے ہیں اس خبر میں تازہ ترین اپ ڈیٹ یہ ہے کہ وہ ابھی زندہ ہیں۔'
حال ہی میں ایک شادی سکینڈل میں ملوث پاکستان کی سب سے بڑی فلمی ہیروئن کا ایک ایسا ویڈیو کلپ نشرہوا جس میں وہ صوفے پر براجمان رپورٹر پر جھکی کبھی اس کےدونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کرتو کبھی اس کے سینے پر ہتھیلی جماکراسے کچھ سمجھارہی ہیں۔اسی کلپ کے آغاز میں اداکارہ کی ویڈیو کیمرہ بند کرنے کی درخواست اور جوابا انہیں دی جانے والی جھوٹی یقین دہانی بھی موجود ہے۔
آپ کیمرہ اور مائیک اٹھائے کسی کے بھی گھر میں گھس سکتے ہیں، آپ کیمرہ بند ہونے کا جھانسہ دیکرکسی کی بھی نجی زندگی کا تماشہ لگا سکتےہیں کیونکہ آپ ٹی وی کے رپورٹر، اینکر ہیں۔ میڈیا کے ایک سٹار ہیں، گفتار کے غازی ہیں۔صدرمملکت،چیف جسٹس آف پاکستان سے لیکر نتھوقصائی تک کوئی بھی آپ کی ' اعلی پرفارمنس' کا نشانہ بن سکتا ہے۔آپ کسی کے بھی ذاتی کردار پر خود بھی کیچڑ اچھال سکتے اور کسی کے ذریعے بھی یہ کام کروا سکتے ہیں۔
آپ نہ تو خود صحافتی اصول بناتے ہیں نہ ہی کسی دوسرے کو بنانے دیتے ہیں۔ اگر حکومت اشارتا صحافتی اخلاقیات کے ضابطے بنانے کی بات بھی کرلے تو آزادی صحافت پر بندش لگانے کا الزام ایک خوفناک شور کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
آپ ہر فن مولا ہیں آپ کی کسی ایشو پرگرفت نہ بھی ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ متحارب فریقوں کو آپس میں لڑا کر تماشہ لگا دینا آپ کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے۔
تماشہ بھی ایسا دلچسپ کہ جس نے پاکستان کو غالبا دنیا کا وہ واحد ملک بنا دیا ہے جہاں لوگ انٹرٹینمنٹ کے لیے نیوز ٹاک شو دیکھتے ہیں اور درجہ بندی سب سے بلند مقام ہونے کی وجہ سے انہیں پرائم ٹائم میں چلایا جاتا ہے۔
روزنامہ پاکستان کے مدیر اعلی مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ ’ایک طوفان بدتمزی برپا ہے سیاسی و ذاتی الزام تراشی ہورہی ہے لوگ مرغے لڑانے بیٹھ جاتے ہیں۔جو چاہے جس مرضی کوگالی دے اور اس کا نام آزادی صحافت رکھ دیا گیاہے۔”
انہوں نے کہا ' لگتا ہے کہ ٹی وی چینلز میں ایڈیٹر(پروڈیوسر) نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے۔اینکر پرسن اور رپورٹر جو چاہتا ہے وہ لائیوکوریج کے نام پر براہ راست عوام تک پہنچ رہا ہے۔'
عارف نظامی کہتے ہیں 'جب سڑک پر چلتے لوگوں کو اینکر پرسن بنا دیا جائے اور ان کی مناسب تربیت کا بندوبست بھی نہ کیا جائےتو یقینامعیار نیچے آئے گا۔'
بہرحال ایسا بھی نہیں کہ تمام اینکر پرسن اور رپورٹر صحافت سے نابلد ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو پہلے توپرنٹ میڈیا سے وابستہ تھے اور ان کی ' تخلیقات' ادارتی ڈیسک کی چھلنی سے گذر کر عوام تک پہنچتی تھیں لیکن وہ جب ٹی وی سکرین کی زینت بنے تو ان کی اڑان روکنے والا کوئی نہیں رہا۔ایسے بھی ہیں جو صحافتی اخلاقیات اور اصولوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن بس رنگ میں رنگے گئے ہیں۔
چند پروگرام ایسے بھی ہیں جن میں صحافتی اقدار کا پاس کیا جاتا ہے اور اخلاقیات کی حد پار نہیں کی جاتی لیکن بدقسمتی سے ایسے پروگرام مقبولیت کی درجہ بندی میں بہت نیچے چلے جاتے ہیں۔
بنیادی وجہ مسابقت ہے اگر کسی چینل پر کسی شخصیت کا تماشا لگ جائےدشنام طرازی ہویا کوئی ایسی نازیبا حرکت ہوجائے جو شہر میں زیربحث آجائے تو اس چینل کے دیکھنے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی اور ناظرین کی زیادہ تعداد چینل کو درجہ بندی میں اوپر لے جائے گی۔
ریٹنگ بہتر ہونے سے اشہتارات کی تعداد اور نرخ بڑھتے ہیں چینل کے کرتا دھرتاؤں کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوتا ہے، مالک خوش ہوتا ہے اوراینکرپرسن یارپورٹر کی مارکیٹ ویلیو آسمان پرجالگتی ہے۔
مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں ' اگر کوئی شخص بازار میں ننگا کھڑاہوجائے تویہ تماشہ دیکھنے کے لیے ایک مجمع لگ جائے گا لیکن شہرت حاصل کرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔' ان کا خیال ہے پاکستان میں میڈیا جو کچھ کررہا ہے اس کی ذمہ داری سماج اور سرکار پر عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے یورپ اور امریکہ جیسے ترقیاتی یافتہ معاشروں کی مثال دی جہاں ہتک عزت کا قانون ہے جو حرکت میں بھی آتا ہے،سول سوسائیٹی ہے جو اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔
پاکستان میں آج تک ہتک عزت کا کوئی ایسا مقدمہ نہیں ہوا جس میں میڈیا کو سزاسنائے جانے کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہوا ہو۔ پوری صحافتی تاریخ میں صرف نوائے وقت کے خلاف پیپلز پارٹی کے رہنما شیخ رشید (مرحوم) کا ایک کیس ہواتھا جس میں اخبار کو کرڑوں روپوں میں جرمانہ بھی ہوا لیکن بعد میں سپریم کورٹ سے اخبار کے حق میں فیصلہ ہوگیا تھا۔
پاکستان میں ہتک عزت کا مقدمہ کرنے کا رواج نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں عدلیہ صرف نام کی آزاد ہے۔'
وجوہات جو بھی ہوں پاکستان کی صحافتی اخلاقیات پر یہ تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کا حال ایسے جاں بلب بکرے جیسا ہے جسے اناڑی قصائی کند چھری سے ذبح کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
Sunday, June 14, 2009
In Ulta Pulta Forum...!
Islam , T20, daily horoscope, mobile repairng, matric notes, f.a notes, urdu games, sports, tv,live tv, software, msn, msn smileys and all things u want...!
Saturday, June 13, 2009
Dollar
ڈالر
1951 وہ سال تھا جب تک پاکستان روس کی دعوت کو مسترد کر کے امریکہ سے یاری پالنے کے شوق میں آگے بڑھ چکا تھا، دلچسپ بات یہ کہ سرحد میں مسلم لیگ کی حکومت بنانے کے لئےنوٹوں کے بریف کیس وفاداری کی خرید کے ضمن میں ادا کئے گئے تھے اب یہ معلوم نہیں وہ نوٹ ڈالر کی شکل میں تھے یا روپے کی؟؟ بہر حال یہ کوئی واقف حال ہی بیان کر سکتا ہے مگر ڈالر کی کارستانی کا آغاز ہو ہی چکا تھا۔ تب ہی تو اُس وقت نعیم صدیقی مرحوم کی ذیل کی نظم "ڈالر" 1951 میں کراچی کے ایک مقامی رسالے میں چھپی تھی ناں، آپ نظم پر ایک نظر ڈالےتو پھر بتائیں کہ کیا شاعر کے وجدان کا قائل ہونا بنتا ہے یا نہیں؟؟
ڈالر!مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا
تو ظلم کا حاصل
تو سحر ملو کانہ کا شعبدہ خاص
سرمائے کی اولاد
تو جیب تراشوں کے کمالات کا اک کھیل
تو سود کا فرزند!
افلاس کی رگ رگ کا نچڑا ہوا خوں ہے
بیواوں کی فریاد!
ہے کتنے یتیموں کی فغان خاموش
توضعیف کی اک چیخ
تو کتنے شبابوں کا ہے اک نوحہ دل گیر
تو کتنی تمناوں کی ایک قبر سنہری
تاریخ کا اک اشک
تو جنگ کی پرہول نفیروں کا تجسم
تو موت کی پریوں کا فسوں کارترتم
تو برق جہاں سوز کا خوں خوار تکلم
لاشوں سے کمائی ہوئی دولت
تہذیب کوتو زخم لگانے کی ہے اجرت
اف کتنی ہی اقوام کے نیلام کی قیمت
بچھو کا ترا ڈنگ
سانپوں کا ترا زہر
انگاروں کا ہے سوز
ہے سونے کے لفظوں میں لکھی تلخ حقیقت
ڈالر!مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا
اے سونے کے ڈالر!
اس فاقہ و افلاس پہ تو رحم نہ فرما
بھوکے ہیں یہاں پیٹ
ننگے ہیں یہاں جسم
پھر روگ ہیں اور درد
جو چارہ گری کے نہیں شرمندہ احساں
یہ ٹھیک ! "چچا سام" کے اے راج دلارے
لیکن مری اس بات سے ناراض نہ ہونا
بھوکے ہیں اگر پیٹ تو ہم بھوکے ہی اچھے
ننگے ہیں اگر جسم تو ہم ننگے ہی اچھے
بیمار ہیں بیچارے، تو ہم مرتے ہیں اچھے
ڈالر!مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا
تو آئے تو ڈالر!
سو عیش تو ہوں گے، سکھ چین اڑیں گے
زرخیز ہیں گوکھیت، پر قحط اُگیں گے
کھیت تو بھریں گے، ہم فاقت کریں گے
جامے تو سلیں گے، تن کم ہی ڈھکیں گے
آمد تو گرے گی، اور بھاو چڑھیں گے
ڈالر!مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا
اس دیس میں تو آئے تو اے سونے کے ڈالر!
آئے کا زبا بھی
پھیلے کا جوا بھی
چھائے گا زنا بھی
اُڑ جائے گا ہر پھول سے پھر رنگ حیا کا
اخلاق پہ منڈلائے گی ہر گندی ہوا بھی
تو آئے تو ڈالر
یاں لائے گا اک اور ہی افتاد یقینا
ہاں پھیلے گا نظریہ الحاد یقینا
ہو جائیں گے ایمان تو برباد یقینا
انسان کو بنا دے گا تو جلاد یقینا
پس جائے کی یہ ملت آزاد یقینا
عبرت کا بنا نقش ترے فیض سے
برباد فلسطین
ڈالر!مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا
تو آئےتو پھر ہم میں حمیت نہیں رہے گی
اس قوم میں، اس دیس میں غیرت نہ رہے گی
اشراف میں کچھ بوئے شرافت نہ رہے گی
رشتوں میں کہیں روح اخوت نہ رہے گی
ڈرتا ہو میں اسلام کی عزت نہ رہے گی
تو آئے تو ڈالر
تقلید کی بو آ کے رہے گی
احساس کی آواز رکے گی
افکار کی پرواز رکے گی
کچھ اور عنایات بھی ساتھ آئیں گی
کچھ خفیہ ہدایات بھی ساتھ آئیں گی
مغرب کی روایات بھی ساتھ آئیں گی
ادبار کی آیات بھی آئیں گی
ڈالر!مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا
یہ خاک مقدس!
اک قوم کا گھر ہی نہیں
اسلام کا گھر ہے
یہ حق کے لئے وقف ہے مسجد کی طرح
مخصوص جو قرآں کے اصولوں کے لئے ہے
اللہ کے لئے ، اُس کے رسولوں کے لئے ہے
کانٹوں کے لئے یہ کب ہے؟ پھولوں کے لئے ہے
اس دیس میں اب بزم نئی ایک سجے گی
اس دیس سے تہذیب نئی ایک اٹھے گی
انساں کو نئی روشنی اب یاں سے ملے گی
پھر مطلع خورشید ہے شعلہ بداماں
رنگوں کے یہ گرداب، کرنوں کے یہ طوفاں
اک صبح کے ساماں
یہ آدم خاکی کے لئے آخری امید
یہ جنت اخلاق کی تاسیس، یہ تمہید
مستقبل انسان کی تاریخ کی تسوید
یہ آخری امید
ڈالر!مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا
Copy Right To http://pensive-man.blogspot.com/