ڈالر
1951 وہ سال تھا جب تک پاکستان روس کی دعوت کو مسترد کر کے امریکہ سے یاری پالنے کے شوق میں آگے بڑھ چکا تھا، دلچسپ بات یہ کہ سرحد میں مسلم لیگ کی حکومت بنانے کے لئےنوٹوں کے بریف کیس وفاداری کی خرید کے ضمن میں ادا کئے گئے تھے اب یہ معلوم نہیں وہ نوٹ ڈالر کی شکل میں تھے یا روپے کی؟؟ بہر حال یہ کوئی واقف حال ہی بیان کر سکتا ہے مگر ڈالر کی کارستانی کا آغاز ہو ہی چکا تھا۔ تب ہی تو اُس وقت نعیم صدیقی مرحوم کی ذیل کی نظم "ڈالر" 1951 میں کراچی کے ایک مقامی رسالے میں چھپی تھی ناں، آپ نظم پر ایک نظر ڈالےتو پھر بتائیں کہ کیا شاعر کے وجدان کا قائل ہونا بنتا ہے یا نہیں؟؟
ڈالر!مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا
تو ظلم کا حاصل
تو سحر ملو کانہ کا شعبدہ خاص
سرمائے کی اولاد
تو جیب تراشوں کے کمالات کا اک کھیل
تو سود کا فرزند!
افلاس کی رگ رگ کا نچڑا ہوا خوں ہے
بیواوں کی فریاد!
ہے کتنے یتیموں کی فغان خاموش
توضعیف کی اک چیخ
تو کتنے شبابوں کا ہے اک نوحہ دل گیر
تو کتنی تمناوں کی ایک قبر سنہری
تاریخ کا اک اشک
تو جنگ کی پرہول نفیروں کا تجسم
تو موت کی پریوں کا فسوں کارترتم
تو برق جہاں سوز کا خوں خوار تکلم
لاشوں سے کمائی ہوئی دولت
تہذیب کوتو زخم لگانے کی ہے اجرت
اف کتنی ہی اقوام کے نیلام کی قیمت
بچھو کا ترا ڈنگ
سانپوں کا ترا زہر
انگاروں کا ہے سوز
ہے سونے کے لفظوں میں لکھی تلخ حقیقت
ڈالر!مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا
اے سونے کے ڈالر!
اس فاقہ و افلاس پہ تو رحم نہ فرما
بھوکے ہیں یہاں پیٹ
ننگے ہیں یہاں جسم
پھر روگ ہیں اور درد
جو چارہ گری کے نہیں شرمندہ احساں
یہ ٹھیک ! "چچا سام" کے اے راج دلارے
لیکن مری اس بات سے ناراض نہ ہونا
بھوکے ہیں اگر پیٹ تو ہم بھوکے ہی اچھے
ننگے ہیں اگر جسم تو ہم ننگے ہی اچھے
بیمار ہیں بیچارے، تو ہم مرتے ہیں اچھے
ڈالر!مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا
تو آئے تو ڈالر!
سو عیش تو ہوں گے، سکھ چین اڑیں گے
زرخیز ہیں گوکھیت، پر قحط اُگیں گے
کھیت تو بھریں گے، ہم فاقت کریں گے
جامے تو سلیں گے، تن کم ہی ڈھکیں گے
آمد تو گرے گی، اور بھاو چڑھیں گے
ڈالر!مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا
اس دیس میں تو آئے تو اے سونے کے ڈالر!
آئے کا زبا بھی
پھیلے کا جوا بھی
چھائے گا زنا بھی
اُڑ جائے گا ہر پھول سے پھر رنگ حیا کا
اخلاق پہ منڈلائے گی ہر گندی ہوا بھی
تو آئے تو ڈالر
یاں لائے گا اک اور ہی افتاد یقینا
ہاں پھیلے گا نظریہ الحاد یقینا
ہو جائیں گے ایمان تو برباد یقینا
انسان کو بنا دے گا تو جلاد یقینا
پس جائے کی یہ ملت آزاد یقینا
عبرت کا بنا نقش ترے فیض سے
برباد فلسطین
ڈالر!مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا
تو آئےتو پھر ہم میں حمیت نہیں رہے گی
اس قوم میں، اس دیس میں غیرت نہ رہے گی
اشراف میں کچھ بوئے شرافت نہ رہے گی
رشتوں میں کہیں روح اخوت نہ رہے گی
ڈرتا ہو میں اسلام کی عزت نہ رہے گی
تو آئے تو ڈالر
تقلید کی بو آ کے رہے گی
احساس کی آواز رکے گی
افکار کی پرواز رکے گی
کچھ اور عنایات بھی ساتھ آئیں گی
کچھ خفیہ ہدایات بھی ساتھ آئیں گی
مغرب کی روایات بھی ساتھ آئیں گی
ادبار کی آیات بھی آئیں گی
ڈالر!مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا
یہ خاک مقدس!
اک قوم کا گھر ہی نہیں
اسلام کا گھر ہے
یہ حق کے لئے وقف ہے مسجد کی طرح
مخصوص جو قرآں کے اصولوں کے لئے ہے
اللہ کے لئے ، اُس کے رسولوں کے لئے ہے
کانٹوں کے لئے یہ کب ہے؟ پھولوں کے لئے ہے
اس دیس میں اب بزم نئی ایک سجے گی
اس دیس سے تہذیب نئی ایک اٹھے گی
انساں کو نئی روشنی اب یاں سے ملے گی
پھر مطلع خورشید ہے شعلہ بداماں
رنگوں کے یہ گرداب، کرنوں کے یہ طوفاں
اک صبح کے ساماں
یہ آدم خاکی کے لئے آخری امید
یہ جنت اخلاق کی تاسیس، یہ تمہید
مستقبل انسان کی تاریخ کی تسوید
یہ آخری امید
ڈالر!مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا
Copy Right To http://pensive-man.blogspot.com/
No comments:
Post a Comment